ایک بھائی نے سوال کیا ہے کہ اس کی شادی آٹھ سال پہلے ہوچکی ہے۔ میری بیوی نے دو سال بعد میرے سے خلع لے لیا ہے۔ اس بھائی کا کہنا ہے کہ خلع لینے کا مقصد یہ تھا۔ کہ الحمداللہ میں ازدواجی زندگی کو بہتر طریقے سے نبھا سکتا ہوں۔ مگر بات دراصل یہ ہے کہ ایک مرد کے اندر اللہ پا ک نےبچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ مرد کے اندر جو بچے پیدا کرنے والے جراثیم ہوتے ہیں
وہ میرے اندر نہیں ہیں۔ میں اپنا علاج کروایا تو میرا سوا ل یہ ہے کہ میرے والدین اصرا ر کر رہے ہیں۔ کہ میں ایک اور شادی کر لوں۔ مجھے مشورہ کرنا ہے کہ میں کسی او ر لڑکی سے شادی کر لوں ۔ اور اس لڑکی کی زندگی تباہ نہ ہوجائے۔ تو آپ مجھے بتائیں کہ ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟ حالانکہ مجھے بھی ایک ساتھی کی ضرورت ہے۔ میں بھی خو د کو بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں۔ تو چلتے ہیں اس مسئلے کے حل کی جانب کہ ایسی صورتحال میں شریعت کیا کہتی ہے۔؟اس کےلیے آپ کو چاہیے کہ آپ جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں اس لڑکی کو اس بارے میں صاف صاف بتا دیں۔ اور یہ بھی بتا دیں کہ میں ہمبستر ی تو کر سکتاہوں لیکن میرے اندر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ دیکھیں کیونکہ
عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی شادی ہوگی ۔ اس کو شوہر کا پیا ر ملے گا ۔ اس کے ساتھ قربت ہوگی۔ اور بچے پیداہوں گے ۔ اور جب شادی کے بعد توقعات پوری نہیں ہوتی۔ تو عورت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے لیے یہ سب کچھ پہلے سے بتا دیں۔ ان تمام معاملات جاننے کے بعد بھی وہ آپ سے شادی کرنےپر رضامند ہے تو ٹھیک ہے۔ توپھر آپ اس سے شادی کرلیں۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں کچھ عورتیں بانجھ ہوتی ہیں۔تو آپ اس بانجھ عورت سے شادی کر لیں ۔ تو اس سے آپ کی زندگی بہت اچھی گزرے گی۔ تیسری صورتحال یہ ہے کہ آپ کسی طلاق یافتہ عورت سے
شادی کرلیں۔ اور گود لے کر بچے کو پال سکتے ہیں۔ یا پھر آپ کسی بیوہ عورت سے شادی کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ اس کے بچوں کا سہارا بن جائیں گے۔ اس طرح دونوں خاندان مکمل ہوجائیں گے۔
Leave a Comment